Latest News

10/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

ہزارہ محنت کشوں کی شہادت ۔ ۔ ۔ قاتل معلوم ہیں؟



اسلام آباد : (جاگو پاکستان) اتوار 3 جنوری 2021ء کو کوئٹہ کے جنوب میں تقریباً 60 کلو میٹر کی دوری پر ’’مچھ‘‘ کے علاقے میں انسانیت دشمنوں نے کوئلہ کانوں میں محنت 
مزدوری کرنے والے کانکنوں کے خون سے ہولی کھیلی۔


 مزدوروں کو نیم شب گہری نیند سے اُٹھا کر ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ سفاک دہشتگردوں نے اس حرام و مذموم مقصد کے لیے قومی شاہراہ پر مچھ شہر کو ملانے والے مقام سے کچھ آگے دائیں طرف ’’گشتری‘‘ کے مقام پر پہاڑوں کے اندر کوئلہ کانوں کے پاس مقیم مزدوروں کا انتخاب کیا۔ یہ سب افراد کوئٹہ کے ہزارہ ٹاﺅن کے باسی تھے۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے تھے۔ 


دن بھر کی محنت و مشقت سے تھکے ماندے یہ محنت کش گہری نیند سو رہے تھے کہ مسلح گروہ کے کارندوں نے محاصرہ کرلیا۔ نیند سے بیدار کیا، آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پاﺅں باندھ کرتیز دھار آلے لیے بڑی بے دردی سے ذبح کر دیا۔ صبح ہی مقامی لیویز اور قومی شاہراہوں پر موجود فرنٹیئر کور کو دلدوز واقعہ کی اطلاع ہوئی۔ 


ہزارہ عوام نے مچھ قومی شاہراہ پر پہلے پہل میتیں رکھ کر احتجاج کیا۔ کچھ دیر میں مرد و خواتین نے کوئٹہ کا مغربی بائی پاس بند کرکے صدائے احتجاج بلند کیا۔ ذمہ داری داعش گروہ 
نے تسلیم کرلی۔


داعش ہو، تحریک طالبان پاکستان یا لشکر جھنگوی افغانستان سے آپریٹ ہو رہی ہیں۔ یہ گروہ کوئٹہ اور صوبے 
میں مختلف علاقوں میں کئی بھیانک عملیات کرچکے ہیں۔


 ہزارہ عوام تین دہائیوں سے نشانے پر ہیں۔ سینکڑوں مرد، خواتین و بچے پیوند خاک ہوچکے ہیں۔ چناں چہ یہ المناک 
خونی واردات بھی ان کی شناخت مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔


 یقینا عوام کو تحفظ کی فراہمی ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کس کی کتنی ناکامی و نا اہلیت ہے، سے قطع نظر یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ملک، دہشتگردی کے مختلف النوع صورتوں کا سامنا کیے ہوئے ہے۔ 


متواتر آپریشنز اورآپریشن ضرب عضب کے بعد یہ گروہ افغانستان فرار ہوئے ہیں۔ جون 2017ء میں کوئٹہ سے اغوا کیے گئے 2 چینی باشندوں کی بازیابی کے لیے مستونگ کے علاقے ’’اسپلنجی‘‘ کے پہاڑی سلسلے میں داعش کے کیمپ کے خلاف آپریشن ہوا۔ 


یہ داعش کا بلوچستان سندھ اور پنجاب کا مرکزی کیمپ تھا۔ یہاں ان کے 12 لوگ مارے گئے، گرفتاریاں بھی ہوئیں اور کچھ فرار ہوکر افغانستان چلے گئے۔ اس کیمپ کا چینی جوڑے کے اغواء کے بعد ہی انکشاف ہوا تھا جن کے صرف ہڈیوں کے ڈھانچے ملے۔ مچھ گشتری میں مزدوروں کا قتل انہی مفرور افراد نے کیا ہے۔ یہ علاقہ ’’اسپلنجی‘‘ سے ملحقہ ہے۔


بلاشبہ بلوچستان کے اندر ان کے خلاف کئی کامیاب آپریشن ہوئے ہیں۔ کمین گاہیں اور تربیتی مراکز مسمار کیے جا چکے ہیں۔ کئی کارندے پکڑے جا چکے ہیں۔ 


ایک بڑی تعداد ماری جا چکی ہے۔ مگر جب تک افغانستان کے اندر ان کا تحفظ اور وجود رہے گا، تب تک ایسے سانحات کے خطرات آئندہ بھی منڈلاتے رہیں گے۔ افغانستان کے اندر امن مذاکرات کامیاب ہوں گے، تو یقینا نئے منظر نامے میں ان گروہوں کے لیے مزید ٹھکانہ نہ رہے گا۔ 


ایک بلوچ عسکریت پسند تنظیم (بی ایل اے) کے افغانستان میں موجود سربراہ نے ہزارہ مزدوروں کے قتل کو ریاست پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ یہ اور اس سوچ کی دوسری تنظیمیں خود اس نوعیت کی کئی سنگین کارروائیوں کی مرتکب ہیں۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد علی الخصوص پنجاب اور خیبر پشتونخوا کے باشندوں کی بڑی تعداد ان کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے۔ 


جولائی 2012ء میں اسی تنظیم نے کوئٹہ سے متصل ’’سورینج‘‘ کے علاقے میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے 7 کانکنوں کو اغوا کے بعد گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ مزدور تنظیم نے لاشیں بلوچستان ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے رکھ کر احتجاج کیا۔ 


اُس وقت سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری میں تب کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری بلوچستان میں لاپتہ 
افراد اور امن کے حوالے سے کیسز کی سماعت کر رہے تھے۔ 


اسی طرح ان مسلح تنظیموں نے تعمیراتی کمپنیوں کے کیمپوں پر حملہ کرکے مزدوروں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ مسافر بسوں سے اتار اتار کر شناخت کے بعد بیک وقت کئی کئی بے گناہوں کا خون کیا ہے۔ 


ریل گاڑیوں پر چھوٹے اور بڑے خود کار اسلحہ سے حملے کیے۔ اس مچھ شہر پر پہاڑوں سے راکٹ برسائے ہیں۔ یعنی ان 
کے ہاتھوں سینکڑوں بے گناہوں کا خون ناحق ہوچکا ہے۔


دوئم انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ مسلح تنظیمیں افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس اور انڈین جاسوس ادارے ’’را‘‘ کے کہنے اور اشتراک سے کیا گل کھلا رہی ہے۔ 


داعش گروہ کابل اور افغانستان کے دوسرے علاقوں میں کئی بہیمانہ کارروائیاں کرچکی ہے۔ تعلیمی اداروں، اسپتالوں، سیاسی و عوامی اجتماعات پر حملے کرچکی ہے۔ وہاں ہزارہ عوام پر کئی حملے کرچکی ہے۔ اور خود ’’را‘‘ کی شہ پر گزشتہ چند دنوں میں پانچ صحافی قتل ہوچکے ہیں۔ 


سماجی کارکن اور علماء کا ہدفی قتل ہوا۔ حملے داعش بھی قبول کرچکی ہے۔ ان صحافیوں، علماء اور سماجی کارکنوں کے موت پر حقائق کے برعکس، کابل کی حکومت اپنے اور بھارتی مفادات کے لیے الزامات بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ افغان طالبان پر عائد کرتی ہے۔ 


افغانستان کے شہریوں کی طرح ایک جاپانی ماہر اور سماجی کارکن ڈاکٹر ناکامورا کا قتل ہوا۔ تاکہ اس کے لیے افغان طالبان کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ مگر افغان عوام اس تخریبی سیاست سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ امن بات چیت کابل حکومت کو ناگوار ہے کہ امن کے قیام کے بعد ان کی حکمرانی نہیں رہے گی۔ 


نئی دہلی اس لیے تخریب کی کو ششیں کر رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف کابل اس کا اہم مورچہ بن چکا ہے۔ چناں چہ اس گھناﺅنے اور سیاہ کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں معصوم و بے گناہ تختہ مشق بنائے جاتے ہیں۔ گویا کابل اور نئی دہلی مجرم ہیں جو اپنے سیاسی او تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے دہشتگردوں کو پال رہے ہیں۔


یہاں ہزارہ عوام کا یہ احتجاج برحق ہے۔ ان کے پاس اپنے تحفظ کو یقینی بنانے اور شنوائی کے لیے کوئی اور راستہ نہیں۔ لیکن خیال رہے کہ ان کی مظلومیت اور بے بسی، کوئی اور اپنے گروہی مفادات کے لیے استعمال نہ کرے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے 
ہمراہ کوئٹہ آئے اور دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کیے۔ 


مقتولین کے لواحقین کو فی کس 25، 25 لاکھ روپے امداد دینے اور جوڈیشل کمیٹی بنانے کا اعلان اور مجرمو ں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی۔ مگر دھرنا منعقد کرانے والوں نے صوبائی حکومت کے مستعفی اور وزیراعظم عمران خان کے کوئٹہ آمد کی شرط رکھی۔ 


صوبائی حکومت کے استعفے کا مطالبہ میں معقولیت نہیں ہے وہ اس لئے کہ صوبے میں حکومت فورسز سمیت کئی طبقے دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں۔ عدالتوں، پولیس تربیتی کالج، پولیس دفاتر،مسیحی برادری کے گرجا گھروں، مساجد و مدارس پر حملے ہوئے ہیں۔ 


جنوری 2013 میں علمدار روڈ خودکش حملے کے بعد 86 میتیں سڑک پر رکھ کر دھرنا دیا گیا۔ وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو ذمے دار قرار دے کر ان کی حکومت برطرف کی گئی۔ دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ ہوا۔ اسی گورنر راج میں ہزارہ ٹاﺅن میں ایک اور خود کش حملے میں 100 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ 


آصف علی زرداری اور سیاست میں در پردہ دخیل بعض دوسرے حلقوں نے اس دھرنے سے اپنے اہداف پانے کی کو شش کی۔ دیکھا جائے تو معروضی حقیقت یہ ہے کہ خود نواب اسلم رئیسانی اور ان کے خاندان کو خطرات کا سامنا ہے۔ نواب اسلم وزیراعلیٰ تھے تو اُن پر کوئٹہ میں بم حملہ ہوا۔ 


پھر مستونگ میں ان کے جواں سال بھتیجے حقمل رئیسانی کو بی ایل اے نے بم حملے میں قتل کر دیا اور پھر 2018ء کے انتخابی مہم کے ایک جلسہ میں، مچھ میں ہزارہ مزدوروں کے قتل میں ملوث نیٹ ورک یعنی داعشی گروہ نے ان کے چھوٹے بھائی نوابزادہ سراج رئیسانی کو خودکش حملہ کرکے قتل کر دیا جس میں کئی لوگ جاں بحق ہوگئے۔ 


لہٰذا کابل کے اسٹیج پر ہونے والی مکروہ سیاست حتیٰ کہ ان کے پاکستان میں بھی موجود کار پردازوں و چیلوں کے خلاف ہر سطح سے آوازیں اُٹھنی چاہیں۔


Post a Comment

0 Comments